۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
رمضان المبارک کے انتیسویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! اس مہینے میں میرے روزوں کو قدردانی اور قبولیت کے قابل قرار دے اس طرح سے کہ جسے تو اور تیرے رسولؐ  پسند کرتے ہیں، یوں کہ اس کے فروع اس کے اصولوں سے مستحکم ہوئے ہوں، ہمارے سرور و سردار محمدؐ اور ان کی آل پاک کے واسطے، اور تمام تر تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پروردگار ہے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیماہ رمضان کے تیسویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں’’أللّهُمَّ اجْعَلْ صِيامي فيہ بالشُّكرِ وَالقَبولِ عَلى ما تَرضاهُ وَيَرضاهُ الرَّسولُ مُحكَمَةً فُرُوعُهُ بِالأُصُولِ بِحَقِّ سَيِّدِنا مُحَمَّدٍ وَآلہ الطّاہرينَ وَالحَمدُ للہ رَبِّ العالمينَ‘‘
خدایا! اس مہینے میں میرے روزوں کو قدردانی اور قبولیت کے قابل قرار دے اس طرح سے کہ جسے تو اور تیرے رسولؐ پسند کرتے ہیں، یوں کہ اس کے فروع اس کے اصولوں سے مستحکم ہوئے ہوں، ہمارے سرور و سردار محمدؐ اور ان کی آل پاک کے واسطے، اور تمام تر تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پروردگار ہے۔
مشہور واقعہ ہے کہ ایک دن حضرت بہلول نے ایک شخص سے پوچھا۔ کھانے کے آداب اور شرائط کیا ہیں؟ وہ بتانے لگا کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئیں، کھانے سے پہلے بسم اللہ کہیں، داہنے ہاتھ سے کھانا کھائیں، ہر لقمہ کو چبا چبا کر کھائیں وغیرہ۔ تو جناب بہلول نے فرمایا: ہاں یہ آداب ہیں لیکن اصل ادب اور شرط تو تم نے بیان ہی نہیں کی۔ تو اس نے عرض کیا کہ آپ ہی بتا دیں۔ فرمایا جو آداب تم نے بتائیں یہ بعد میں انجام دئیے جائیں گے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ جو کھا رہے ہو وہ رزق حلال ہے یا نہیں۔ جسے سن کر وہ شخص حیرت میں پڑ گیا کہ جو بات سب سے زیادہ ضروری تھی وہ اس کی جانب متوجہ ہی نہیں تھا۔
عبادات چاہے نماز ہو یا روزہ اس میں بھی یہی دو باتیں اہم ہیں ایک اس کو انجام دینے کا طریقہ، واجبات و ارکان کی صحیح ادائیگی، مثلا روزہ میں ان آٹھ یا نو چیزوں سے پرہیز جو روزہ کو باطل کر دیتی ہیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ ان احکام و آداب کی پابندی سے ہماری عبادات کی صحیح ادائیگی ہوتی ہے اور ہم اپنے فریضہ کو ادا کرتے ہیں لیکن یہ پابندی، اعمال و عبادات کی قبولیت کا سبب ہرگز نہیں ہیں۔ اس کے لئے دیگر کچھ بنیادی احکام ہیں جنکا خیال ہمیں ہر عبادت میں کرنا ہے۔ جیسا کہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: کُونُوا عَلی قَبُول الْعَمَلِ اَشَدَّ عِنایة مِنکُم عَلَی الْعَمَل ۔ عمل کی قبولیت پر عمل سے زیادہ توجہ دو۔ (بحارالانوار، جلد ۷۱، صفحہ ۱۷۳ )
۱. تقویٰ: ارشاد ہو رہا ہے۔ إِنَّما یتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِین ۔ خدا صرف متقین (اہل تقویٰ) کے اعمال قبول کرتا ہے۔ (سورہ مائدہ، آیت ۲۷)
ظاہر ہے ہر عبادت کا مقصد تقرب پروردگار ہوتا ہے جیسا کہ ہم ہر عبادت میں قربۃ الی اللہ یعنی ہم اس عبادت، نماز، روزہ کے ذریعہ اللہ کا تقرب چاہتے ہیں اور یہ تقرب اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب انسان کے پاس تقویٰ ہو، پرہیزگاری ہو، عمل اللہ کے لئے ہو اور صرف اللہ کے لئے ہو۔ جب یہ عبادت صرف اللہ کے لئے ہو گی تو اس کا سو فیصدی نتیجہ بھی عبادت گذار کو حاصل ہو گا۔ مثلا قرآن کریم نے نماز کا فائدہ بتایا کہ نماز انسان کو برائی اور بڑے گناہوں سے روکتی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر جاننا چاہتے ہو کہ تمہاری نماز قبول ہوئی یا نہیں تو یہ دیکھو کہ برائی اور بڑے گناہ سے دور ہوئے یا نہیں۔ اگر دور ہو گئے تو نماز قبول ہے اور اگر دور نہیں ہوئے (پہلے ہی جیسے ہو) تو نماز قبول نہیں ہے۔ (بحارالأنوارج ۷۹ ص ۱۹۸باب ۱- فضل الصلاة و عقاب تارکها..) اسی طرح قرآن کریم نے روزہ کا فائدہ اور نتیجہ تقویٰ کو بتایا ہے۔ اگر ایک مہینہ روزہ رکھنے کے بعد ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہوا تو ہمارا روزے قبول ہیں ورنہ نہیں۔
۲. ‌حقوق الناس کی ادائیگی۔ ہر عبادت میں خلوص نیت کے بعد جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ حقوق الناس کی ادائیگی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: خدا وند عالم نے مجھ پر وحی کی کہ اے پیغمبروں کے بھائی، اے انذار کرنے (ڈرانے والوں) کے بھائی! اپنی قوم کو انذار کریں (ڈرائیں) کہ عبادت کے لئے میرے گھروں میں سے کسی گھر (مثلا مسجد) میں داخل نہ ہوں اگر انکی گردن پر کسی بندہ کا کوئی حق ہے۔ اور اگر کوئی کسی بندے کے (واجب الادا) حق کی ادائیگی کے بغیر عبادت میں مصروف ہو گا تو جب تک وہ نماز پڑھے گا میں اس پر لعنت کروں گا۔ یہاں تک کہ حق ادا کر دے۔
(بحارالأنوارج ۷۹ ص ۱۹۸باب ۱،ح۱۰۳۲۴)
امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں اپنے اصحاب کو خطاب کرتے ہوئے یہی فرمایا تھا کہ اگر کسی کی گردن پر کسی بندے کا کوئی حق ہے تو جائے پہلے اسے ادا کرے۔ امام عالی مقام کی اس شرط سے واضح ہو گیا کہ بندگی کے سفر کی پہلی منزل حقوق الناس کی ادائیگی ہے۔ آج جب ہم اپنے سماج میں نظر کرتے ہیں تو لوگ مستحبات اور رسومات کی ادائیگی میں بڑے بڑے دسترخوان بچھا دیتے ہیں لیکن جو واجب ہے خمس، زکات، صلہ رحمی اس سے میلوں دور ہیں۔
بات تلخ ہے لیکن کہنا ضروری ہے کہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ مولا کے نام پر خرچ کرنے والا مولا کے بتائے راستہ پر خرچ کرنے سے کیسے پیچھے ہے۔ کیوں خمس ادا نہیں کرتا، کیوں زکات ادا نہیں کرتا، کیوں صلہ رحم نہیں کرتا؟
۳. ‌حلال لباس اور حلال جگہ۔ اگرچہ یہ شرط عموما صرف نماز میں دیکھی جاتی ہے لیکن ہر عبادت میں اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ عبادت کرنے والے کا لباس حلال ہو، جگہ حلال ہو غصبی نہ ہوں۔
۴. ولایت و برائت: ہر عبادت کی قبولیت کی ایک اہم شرط اہلبیت علیہم السلام کی ولایت اور انکے دشمنوں سے برائت ہے۔ روایت میں ہے کہ جب امام زین العابدین علیہ السلام سے نماز کی قبولیت کی شرط کے سلسلہ میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ہم اہلبیت کی ولایت اور ہمارے دشمنوں سے برائت کے ذریعہ ہی عبادت قبول ہوتی ہے۔
(بحارالأنوارج ۷۹ ص ۱۹۸باب۱، ح ۱۰۳۲۶)
اسی طرح عامہ اور خاصہ کی کتب احادیث میں کثرت سے روایتیں موجود ہیں کہ جن کا مفہوم یہ ہے کہ انسان چاہے کتنی ہی عبادت کیوں نہ کر لے لیکن اگر اہلبیت علیہم السلام کی ولایت نہیں تو کوئی عمل قبول نہیں ہے۔ ظاہر ہے یہی ولایت و محبت و مودت ہے جو قرآن کی روشنی میں اجر رسالت ہے۔
۵. تواضع و انکساری: عبادت انسان کو منکسرالمزاج بناتی ہے مغرور اور گھمنڈی نہیں۔ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت اس کا خاصہ ہوتا ہے۔ اپنی عبادت پر اکڑتا نہیں ہے۔ اللہ والا اللہ کے بندوں کی مدد سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ امام زین العابدین علیہ السلام کے اعضائے سجدہ پر جس طرح سجدوں کے نشان تھے ویسے ہی پشت پر اس بار کے نشانات تھے جو روٹی غذا آپ پشت پر رکھ کر رات کے اندھیرے میں لوگوں کی مدد کرتے تھے۔
اسی طرح انسان کو خیال رکھنا چاہئیے کہ وہ کام انجام دے جس سے خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ اللہ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم میں دنیا و آخرت میں ظالموں سے انتقام لوں گا اور جو کسی مظلوم کو دیکھے اور اسکی مدد کی طاقت رکھنے کے باوجود مدد نہ کرے تو میں اسے سزا دوں گا۔
اسی طرح سچ بولنا، کسی کی توہین نہ کرنا، اخلاق سے پیش آنا وغیرہ اللہ و رسول کو پسند ہے لہذا ہمیں ان تمام باتوں کا خیال رکھنا چاہئیے جو اللہ و رسول کو پسند ہیں۔
مُحْکَمَةً فُرُوعُهُ بِالْأُصُولِ‏ ۔ اس کے فروع کو اس کے اصول سے مستحکم کر دے۔
اصول دین یعنی توحید، عدل، نبوت، امامت اور قیامت۔ فروع دین یعنی نماز، روزہ، حج، زکات، خمس، جہاد، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، تولا اور تبری ہے۔ اصول دین یعنی ایمان و عقیدہ اور فروع دین یعنی اعمال و عبادات۔ ایمان و عقیدہ جڑ ہے اور اعمال و عبادات شاخ ہیں۔ شاخ اسی وقت تک سر سبز و شاداب رہتی ہے جب تک جڑ سے وابستہ ہو۔ اسی طرح اعمال کو اسی وقت منزل قبولیت نصیب ہوتی ہے جب وہ اصول دین کی روشنی میں ہو۔ عمل صرف اللہ کے لئے ہو.
بارگاہ خدا میں دعا ہے کہ وہ ہماری نماز، روزہ، دعا و مناجات کو قبول فرمائے، ہمیں توفیق دے کہ ہم وہ اعمال انجام دیں جو اسکی اور اس کے رسول کی خوشنودی کا سبب ہوں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .